بات بہہ جانے کی سن کر اشک برہم ہو گئے
اک ذرا کوشش بھی کی تو اور پر نم ہو گئے
یہ ہوا معمول کہ مانوس غم دل ہو گیا
ہم سمجھ بیٹھے ہمارے درد کچھ کم ہو گئے
کیفیت اظہار سوز دل کی کچھ ایسی ہوئی
آتے آتے لب تلک الفاظ مبہم ہو گئے
وقت کی چارہ گری بھی دیکھیے کیا خوب ہے
غم دوا میں ڈھل گیا اور زخم محرم ہو گئے
گردشوں کے ابر کی اک بوند تن پر کیا گری
کل جو تھے شعلہ صفت وہ آج شبنم ہو گئے
تھے ہمارے خوں کے قطرے خاک کی صورت خدا
تیرے نقش پا کو چھو کر آب زمزم ہو گئے
دشمنی بڑھنے کا یوں نایابؔ غم ہم کو نہیں
ہاں مگر افسوس یہ ہے دوست کچھ کم ہو گئے
غزل
بات بہہ جانے کی سن کر اشک برہم ہو گئے
نتن نایاب