بات بن جائے جو تفصیل سے باتیں کر لے
تشنگی میری اگر جھیل سے باتیں کر لے
جہاں کے گاؤں سے تاریکی نکل سکتی ہے
دل اگر فکر کی قندیل سے باتیں کر لے
تو خریدار مرے دل کی زمیں کا ہے ٹھہر
پہلے دل روح کی تحصیل سے باتیں کر لے
کعبۂ دل تجھے محفوظ اگر رکھنا ہے
جا کے الفت کی ابابیل سے باتیں کر لے
صرف قرآں کے علاوہ ہے بھلا کس کی مجال
جو کہ تورات سے انجیل سے باتیں کر لے
وہ سہولت ہمیں گوگل نے فراہم کی ہے
پل میں انسان برازیل سے باتیں کر لے
عاقبت اپنی بنانی ہے اگر فیضؔ تجھے
نفس کی اڑتی ہوئی چیل سے باتیں کر لے
غزل
بات بن جائے جو تفصیل سے باتیں کر لے
فیض خلیل آبادی