بات اپنوں کی کروں میں کسی بیگانے سے
کیوں بہک جاتے ہو تم غیر کے بہکانے سے
راز کی بات ہے پوچھو کسی دیوانے سے
عقدۂ عشق کھلا کب کسی فرزانے سے
کیا کہے ان سے کوئی دل کی تمنا کیا ہے
جان کر بھی جو بنے رہتے ہیں انجانے سے
آن کی آن میں جل بجھ کے ہوا خاکستر
کیا کہیں کہہ دیا کیا شمع نے پروانے سے
اے شفقؔ عقدۂ ہستی کا سلجھنا معلوم
جو الجھ جاتا ہے کچھ اور بھی سلجھانے سے
غزل
بات اپنوں کی کروں میں کسی بیگانے سے
گوپال کرشن شفق