بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے
لیکن ہم دونوں سے اس کی طاقت بہت زیادہ ہے
آپ کے پیچھے پیچھے پھرنے سے تو رہے اس عمر میں ہم
راہ پہ آ بیٹھے ہیں یہ بھی غنیمت بہت زیادہ ہے
عشق اداسی کے پیغام تو لاتا رہتا ہے دن رات
لیکن ہم کو خوش رہنے کی عادت بہت زیادہ ہے
کام تو کافی رہتا ہے لیکن کرنا ہے کس نے یہاں
بے شک روز ادھر آ نکلو فرصت بہت زیادہ ہے
کیا کچھ ہو نہ سکا ہم سے اور ہونے والا ہے کیا کچھ
حسرت بھی کافی ہے لیکن حیرت بہت زیادہ ہے
سیر ہی کرکے آ جائیں گے پھر بازار تماشا کی
جس شے کو بھی ہاتھ لگائیں قیمت بہت زیادہ ہے
اس کی توجہ حاصل کی اور بیچ میں سب کچھ چھوڑ دیا
حکمت جتنی بھی ہو اس میں حماقت بہت زیادہ ہے
عشق ہے کس کو یاد کہ ہم تو ڈرتے ہی رہتے ہیں سدا
حسن وہ جیسا بھی ہے اس کی دہشت بہت زیادہ ہے
ایک چیز جو اپنی رسائی سے باہر ہے کہیں ظفرؔ
سچ پوچھو تو اس کی ہمیں ضرورت بہت زیادہ ہے
غزل
بات ایسی بھی کوئی نہیں کہ محبت بہت زیادہ ہے
ظفر اقبال