بات اگر نہ کرنی تھی کیوں چمن میں آئے تھے
رنگ کیوں بکھیرا تھا پھول کیوں کھلائے تھے
بیکراں خلاؤں کی حد بھی باندھ دینی تھی
جب زمیں بنائی تھی آسماں بنائے تھے
بے ادب نہ تھے ہم کچھ اپنی بھول اتنی تھی
آپ تک پہنچ کر بھی آپ میں نہ آئے تھے
آنسوؤں کی چادر نے ڈھک دیا ہمیں ورنہ
مانگ بھی سجائی تھی خواب بھی سجائے تھے
آج تیرے چرنوں کا روپ ہی نرالا ہے
آج پھول پوجا کے دھول سے اٹھائے تھے
اے رضاؔ حقیقت تو اب گلے پڑی ورنہ
بوئی تھیں گھٹائیں بھی چاند بھی اگائے تھے

غزل
بات اگر نہ کرنی تھی کیوں چمن میں آئے تھے
کالی داس گپتا رضا