EN हिंदी
بات اگر نہ کرنی تھی کیوں چمن میں آئے تھے | شیح شیری
baat agar na karni thi kyun chaman mein aae the

غزل

بات اگر نہ کرنی تھی کیوں چمن میں آئے تھے

کالی داس گپتا رضا

;

بات اگر نہ کرنی تھی کیوں چمن میں آئے تھے
رنگ کیوں بکھیرا تھا پھول کیوں کھلائے تھے

بیکراں خلاؤں کی حد بھی باندھ دینی تھی
جب زمیں بنائی تھی آسماں بنائے تھے

بے ادب نہ تھے ہم کچھ اپنی بھول اتنی تھی
آپ تک پہنچ کر بھی آپ میں نہ آئے تھے

آنسوؤں کی چادر نے ڈھک دیا ہمیں ورنہ
مانگ بھی سجائی تھی خواب بھی سجائے تھے

آج تیرے چرنوں کا روپ ہی نرالا ہے
آج پھول پوجا کے دھول سے اٹھائے تھے

اے رضاؔ حقیقت تو اب گلے پڑی ورنہ
بوئی تھیں گھٹائیں بھی چاند بھی اگائے تھے