بارش رکی وباؤں کا بادل بھی چھٹ گیا
ایسی چلیں ہوائیں کہ موسم پلٹ گیا
پتھر پہ گر کے آئینہ ٹکڑوں میں بٹ گیا
کتنا مرے وجود کا پیکر سمٹ گیا
کٹتا نہیں ہے سرد و سیہ رات کا پہاڑ
سورج تھا سخت دھوپ تھی دن پھر بھی کٹ گیا
چھالیں شجر شجر سے اترنے کو آ گئیں
بوسیدہ پیرہن ہوا اتنا کہ پھٹ گیا
تلوار بے یقینی کے ہاتھوں میں آ گئی
اپنے مقابلے میں ہر اک شخص ڈٹ گیا
جب تک نہ چھو کے دیکھا تھا وسعت تھی آپ میں
دیکھا تو چھوئی موئی کا پودا سمٹ گیا
سایہ تھا بھاگتا تھا بہت میری دھوپ سے
وہ شخص کہ جو میرے گلے سے چمٹ گیا
غزل
بارش رکی وباؤں کا بادل بھی چھٹ گیا
یٰسین افضال