EN हिंदी
بارش نہیں لاتی کبھی افلاک سے خوشبو | شیح شیری
barish nahin lati kabhi aflak se KHushbu

غزل

بارش نہیں لاتی کبھی افلاک سے خوشبو

رؤف امیر

;

بارش نہیں لاتی کبھی افلاک سے خوشبو
خود جھوم کے اٹھتی ہے اسی خاک سے خوشبو

اس باغ طلسمات کے پھولوں کا تو کیا ذکر
آتی ہے وہاں کے خس و خاشاک سے خوشبو

سو منظر خوں رنگ تھے کونپل سے کلی تک
پھوٹی نہیں یونہی گل صد چاک سے خوشبو

احساس کو چھو جائے تو چھو جائے وگرنہ
رہتی ہے گریزاں حد ادراک سے خوشبو

محسوس تو ہوتی ہے اگر کوئی کرے تو
اجداد کی اجداد کی املاک سے خوشبو