بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
لوگ بھی کترائے کیا کیا مجھ کو تنہا دیکھ کر
مجھ کو اس کا غم نہیں سیلاب میں گھر بہہ گئے
مسکرایا ہوں میں بے موسم کی برکھا دیکھ کر
ریت کی دیوار میں شامل ہے خون زیست بھی
اے ہواؤ سوچ کر اے موج دریا دیکھ کر
اپنے ہاتھوں اپنی آنکھیں بند کرنی پڑ گئیں
نگہت گل کے جلو میں گرد صحرا دیکھ کر
میرے چہرے پر خراشیں ہیں لکیریں ہاتھ کی
میری قسمت پڑھنے والے میرا چہرا دیکھ کر
غزل
بارہا ٹھٹھکا ہوں خود بھی اپنا سایہ دیکھ کر
اختر ہوشیارپوری