باقی نہ حجت اک دم اثبات رہ گئی
ثابت کیا جو اس کا دہن بات رہ گئی
کیا جلد وصل یار کی کم رات رہ گئی
جو بات چاہتے تھے وہی رات رہ گئی
بد نامیوں کے ڈر سے وہ ملتے ہیں گاہ گاہ
چوری چھپے کی ان سے ملاقات رہ گئی
گریاں وہ ہوں جو ابر مژہ کی جھڑی لگی
منہ میرا دیکھ دیکھ کے برسات رہ گئی
ہر وقت بات بات پہ دیتے ہو جھڑکیاں
کیوں صاحب اب ہماری یہ اوقات رہ گئی
ملتا نہیں کسی سے بشر کوئی بے غرض
مطلب کی اب جہاں میں ملاقات رہ گئی
گردش میں ساتھ ان آنکھوں کا کوئی نہ دے سکا
دن رہ گیا کبھی تو کبھی رات رہ گئی
واعظ کو اپنے رنگ پہ لے آیا کھینچ کر
آج آبروئے رند خرابات رہ گئی
باتیں سنائیں غیروں کے آگے جو یار نے
فرمائیے پھر آپ کی کیا بات رہ گئی
فرقت میں صبر و ہوش تو سب کوچ کر گئے
پر ایک جان مورد آفات رہ گئی
توہین مے نہ کرتی تھی رندوں میں واعظا
عزت تمہاری قبلۂ حاجات رہ گئی
دل میں تو خاک اڑتی ہے ظاہر میں ہیں فدا
اب تو منافقانہ ملاقات رہ گئی
دینے کے بدلے دیتے ہیں سائل کو جھڑکیاں
یہ رہ گئے امیر یہ خیرات رہ گئی
دل پائمال کرنے تھے رفتار ناز کو
یہ چال تجھ سے او بت بد ذات رہ گئی
آمادہ جان لینے پہ میری تھی وہ مگر
کیا جانیں کیوں ابھر کے تری گات رہ گئی
دنیا سے بڑھ کے کون ہے ہرجائی دوسرا
دو دن نہ کس کے پاس یہ بد ذات رہ گئی
جو کچھ تھا پاس کر چکے سب نذر مے فروش
اب میکشوں کی قرض پہ اوقات رہ گئی
کرنا تھا نقد ہوش اسے نذر اے قلقؔ
پیر مغاں کی ہم سے مدارات رہ گئی
غزل
باقی نہ حجت اک دم اثبات رہ گئی
ارشد علی خان قلق