باقی ہے وہی شوخئ گفتار ابھی تک
دیوانے پہنچتے ہیں سر دار ابھی تک
سر پر ہے بہاروں کے مرے خون کا صحرا
آلودہ لہو سے ہیں گل و خار ابھی تک
آزادئ کامل کے تصور میں ہے انساں
اپنے ہی خیالوں میں گرفتار ابھی تک
گاتے ہیں اخوت کے ترانے تو شب و روز
بربادئ عالم کو ہیں تیار ابھی تک
بیگانہ بنے لاکھ محبت سے زمانہ
ہے جنس گراں مایہ ترا پیار ابھی تک
ہوتی ہے خیالوں ہی میں تنظیم چمن کی
کردار ہی بدلے ہیں نہ گفتار ابھی تک
معصوم ہے معصوم بہت امن کی دیوی
قبضہ میں لیے خنجر خوں خار ابھی تک
عارفؔ یہ زمانہ تو بدلنا ہی پڑے گا
اٹھو بھی ہے اس کی وہی رفتار ابھی تک

غزل
باقی ہے وہی شوخئ گفتار ابھی تک
محمد عثمان عارف