بام پر آئے کتنی شان سے آج
بڑھ گئے آپ آسمان سے آج
جب کہا ہم خفا ہیں جان سے آج
بولے خوش کر دیں امتحان سے آج
کس مزے کی ہوا میں مستی ہے
کہیں برسی ہے آسمان سے آج
بے تکلف نہ ہو کوئی ان سے
بنے بیٹھے ہیں میہمان سے آج
میں نے چھیڑا تو کس ادا سے کہا
کچھ سنو گے مری زبان سے آج
دل کے ٹکڑوں کی طرح ہم نے چنے
ٹکڑے کچھ دل کی داستان سے آج
نیچی داڑھی نے آبرو رکھ لی
قرض پی آئے اک دکان سے آج
اونچے کوٹھوں کے بیٹھنے والے
باتیں کرتے تھے آسمان سے آج
ناتواں دل کی بے زباں دل کی
آپ نے سن لی اپنے کان سے آج
کوئی جا کر ریاضؔ کو سمجھائے
کچھ خفا ہیں وہ اپنی جان سے آج
غزل
بام پر آئے کتنی شان سے آج
ریاضؔ خیرآبادی