EN हिंदी
بام پر آئے کتنی شان سے آج | شیح شیری
baam par aae kitni shan se aaj

غزل

بام پر آئے کتنی شان سے آج

ریاضؔ خیرآبادی

;

بام پر آئے کتنی شان سے آج
بڑھ گئے آپ آسمان سے آج

جب کہا ہم خفا ہیں جان سے آج
بولے خوش کر دیں امتحان سے آج

کس مزے کی ہوا میں مستی ہے
کہیں برسی ہے آسمان سے آج

بے تکلف نہ ہو کوئی ان سے
بنے بیٹھے ہیں میہمان سے آج

میں نے چھیڑا تو کس ادا سے کہا
کچھ سنو گے مری زبان سے آج

دل کے ٹکڑوں کی طرح ہم نے چنے
ٹکڑے کچھ دل کی داستان سے آج

نیچی داڑھی نے آبرو رکھ لی
قرض پی آئے اک دکان سے آج

اونچے کوٹھوں کے بیٹھنے والے
باتیں کرتے تھے آسمان سے آج

ناتواں دل کی بے زباں دل کی
آپ نے سن لی اپنے کان سے آج

کوئی جا کر ریاضؔ کو سمجھائے
کچھ خفا ہیں وہ اپنی جان سے آج