بام و در ٹوٹ گئے بہہ گیا پانی کتنا
اور برباد کرے گی یہ جوانی کتنا
رنگ کمھلا دیا بالوں میں پرو دی چاندی
طول کھینچے گی ابھی اور کہانی کتنا
یہ تلاطم یہ انا آبلہ پائی یہ جنوں
ہم بھی دیکھیں گے کہ ہے جوش جوانی کتنا
درمیاں آ گیا ابہام کا اک کوہ گراں
ڈھونڈھتے رہ گئے ہم دشت معانی کتنا
برف کی طرح جمے جاتے ہیں سارے الفاظ
کام آئے گی یہاں سحر بیانی کتنا
ڈوب کر سانسوں میں رگ رگ میں سما کر دیکھو
مسئلہ دل کا سلجھنا ہے زبانی کتنا
بڑھتا جائے گا یہ سیلاب حوادث شاہدؔ
روک پائے گا کوئی زور روانی کتنا
غزل
بام و در ٹوٹ گئے بہہ گیا پانی کتنا
شاہد ماہلی