بام و در پر رینگتی پرچھائیاں
مجھ سے اب مانوس ہیں تنہائیاں
اب سمندر بھی بہت سطحی ہوئے
اب رہیں ان میں نہ وہ گہرائیاں
خانۂ دل کو کرو آباد پھر
مجھ کو لوٹا دو وہی رعنائیاں
اک تھکن سی جسم پر طاری ہوئی
ٹوٹ کر گرنے لگیں پرچھائیاں
غزل
بام و در پر رینگتی پرچھائیاں
ندیم ماہر