EN हिंदी
بام و در پر رینگتی پرچھائیاں | شیح شیری
baam-o-dar par rengti parchhaiyan

غزل

بام و در پر رینگتی پرچھائیاں

ندیم ماہر

;

بام و در پر رینگتی پرچھائیاں
مجھ سے اب مانوس ہیں تنہائیاں

اب سمندر بھی بہت سطحی ہوئے
اب رہیں ان میں نہ وہ گہرائیاں

خانۂ دل کو کرو آباد پھر
مجھ کو لوٹا دو وہی رعنائیاں

اک تھکن سی جسم پر طاری ہوئی
ٹوٹ کر گرنے لگیں پرچھائیاں