بالیدگئی ظرف پہ دکھلائے گئے لوگ
ہر گام پہ گم نام ہے مٹواے گئے لوگ
اس فرش طلسمی کو عطا کر دی فراغت
یوں طشت فریبی میں ہی بکھرائے گئے لوگ
قسمت کی لکیروں میں جنہیں باندھ کے رکھا
آزادی کی مسند پہ بھی بٹھلائے گئے لوگ
ہر روز نیا ایک تماشہ ہوا جاری
آرائش دنیا میں جو الجھائے گئے لوگ
پیچیدگی فکر میں کیا خوب پھنسایا
احساس کے شانوں سے ہی سلجھائے گئے لوگ
دنیا میں درندوں کو بڑے فخر سے بھیجا
ہر ظلم پہ پھر صبر سے سمجھائے گئے لوگ
اک خوف تھا اس جائے پریشاں کی فضا میں
بے خوف جو کچھ نکلے وہ دھمکائے گئے لوگ
بے خوفی سے جب خوف بڑھا اہل جہاں کا
مقتول ہوئے خاک میں دفنائے گئے لوگ
حق چپ ہی رہے لب نہ کھلیں سر نہ اٹھائے
اس واسطے بے موت بھی مروائے گئے لوگ
نیرنگیٔ کردار پہ حیران ہیں اسریٰؔ
سو پہلو سے اک بزم میں ملوائے گئے لوگ
غزل
بالیدگئی ظرف پہ دکھلائے گئے لوگ
اسریٰ رضوی