بالائے بام غیر ہے میں آستان پر
چاہیں جسے چڑھائیں حضور آسمان پر
کیوں نامراد آہ گئی آسمان پر
ٹوٹے نہ آسمان کہیں میری جان پر
رسوائیاں ہیں ساتھ وہ چھپ کر ہزار جان
سو سو کے سر جھکے ہیں قدم کے نشان پر
آنا اسے ضرور گو ہوں لاکھ اہتمام
عاشق ہے ان کی نیند مری داستان پر
تھا راز دار حسن وہ کافر جو کہہ گیا
معشوق دل کی بات نہ لائیں زبان پر
ان کی گلی میں رات میں اس وضع سے گیا
گھبرا کے پاسبان گرے پاسبان پر
نازک سی تیغ یار ہے کیا زہر کی بجھی
کھائے ہوئے ہے زہر مرے امتحان پر
بنتے ہیں شوخیوں سے وہ سورج بھی چاند بھی
نقش قدم بھی آپ کے ہیں آسمان پر
خلوت میں بھی چلی ہیں کہیں سینہ زوریاں
اس طرح آپ تن کے اٹھے کس گمان پر
ذکر مے طہور نے تڑپا دیا ریاضؔ
جانا پڑا ہمیں کسی اونچی دکان پر
غزل
بالائے بام غیر ہے میں آستان پر
ریاضؔ خیرآبادی