بال شیشے میں کہیں بال سے میں ہوتا ہوں
بے یقینی میں پڑے جال سے میں ہوتا ہوں
ایسا بیمار بناتی ہے تری آنکھ مجھے
ایسے گلنار ترے گال سے میں ہوتا ہوں
تجھ پہ وہ عمر گزاری میں کہیں آئے نہ آئے
شعر کہتے ہوئے جس حال سے میں ہوتا ہوں
دام و درہم ہنر خواب کے بدلے لاؤ
ایسے مرعوب کہاں مال سے میں ہوتا ہوں
دل کی گہرائی تری ذات کی تنہائی مری
قال سے تو ہوا ہے حال سے میں ہوتا ہوں
ایک تجریدی نمو حسن نے رکھی ہم میں
خد سے تو ہوتا ہوا خال سے میں ہوتا ہوں
اور ذرا تھم کے عدم نامۂ حسرت ہو کر
اشک بیزار تری ڈھال سے میں ہوتا ہوں

غزل
بال شیشے میں کہیں بال سے میں ہوتا ہوں
خمار میرزادہ