EN हिंदी
باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں | شیح شیری
bahar ke asrar lahu ke andar khulte hain

غزل

باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں

ساقی فاروقی

;

باہر کے اسرار لہو کے اندر کھلتے ہیں
بند آنکھوں پر کیسے کیسے منظر کھلتے ہیں

اپنے اشکوں سے اپنا دل شق ہو جاتا ہے
بارش کی بوچھار سے کیا کیا پتھر کھلتے ہیں

لفظوں کی تقدیر بندھی ہے میرے قلم کے ساتھ
ہاتھ میں آتے ہی شمشیر کے جوہر کھلتے ہیں

شام کھلے تو نشے کی حد جاری ہوتی ہے
تشنہ کاموں کی حجت پر ساغر کھلتے ہیں

ساقیؔ پاگل کر دیتے ہیں وصل کے خواب مجھے
اس کو دیکھتے ہی آنکھوں میں بستر کھلتے ہیں