EN हिंदी
باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے | شیح شیری
bahar ka mahaul to hum ko aksar achchha lagta hai

غزل

باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے

اصغر مہدی ہوش

;

باہر کا ماحول تو ہم کو اکثر اچھا لگتا ہے
شام سے اک دن گھر میں رہ کر دیکھیں کیسا لگتا ہے

کس کی یادیں کس کے چہرے اگتے ہیں تنہائی میں
آنگن کی دیواروں پر کچھ سایہ سایہ لگتا ہے

جسموں کے اس جنگل میں بس ایک ہی رام کہانی ہے
غور سے دیکھو تو ہر چہرہ اپنا چہرا لگتا ہے

موسم کی عیاش ہوا نے کچے پھل بھی توڑ لیے
شاخ پہ لرزاں پتا پتا سہما سہما لگتا ہے

دانہ دانہ دام لگا ہے جال بچھا ہے پانی پر
ہائے رے یہ معصوم کبوتر کتنا بھولا لگتا ہے

سرخ پرندہ ڈوب رہا ہے کالی جھیل کے پانی میں
سچ کہنا اے ساحل والو تم کو کیسا لگتا ہے

سائے کی امید نہ رکھیے پتھر کی چٹانوں سے
بوسیدہ دیوار کا سایہ پھر بھی سایہ لگتا ہے

محرومی کی تصویریں بھی کتنی دلکش ہوتی ہیں
تھک کر سونے والے کو ہر خواب سنہرا لگتا ہے

اڑ کے پرندے پار نہ پائیں شام کو تھک کر لوٹ آئیں
ہوشؔ مجھے یہ سارا عالم ایک جزیرہ لگتا ہے