باہر حصار غم سے فقط دیکھنے میں تھا
الجھا ہوا تو وہ بھی کسی مسئلے میں تھا
یوں بھی غلط امید کا الزام آ گیا
حالانکہ ہر سوال مرا ضابطے میں تھا
دنیا کی فکر تجھ کو مجھے تھا ترا خیال
بس اتنا فرق تیرے مرے سوچنے میں تھا
ہر شخص اپنے آپ کو سمجھے ہوئے تھا میر
تقلید کار کوئی کہاں قافلے میں تھا
پتھر وہیں سے آتے تھے مجھ کو نوازنے
شیشے کا اک مکاں جو مرے راستے میں تھا
سلطانؔ حکمراں تھا وہ ہر لمحہ ذہن پر
مشغول رات دن میں جسے بھولنے میں تھا
غزل
باہر حصار غم سے فقط دیکھنے میں تھا
سلطان نظامی