باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے
سورج چھوا نہ تھا کہ مرے ہاتھ جل گئے
یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش
کیسے تماشبین تھے پتھر میں ڈھل گئے
جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سرخ
زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے
بگلوں سے ان کے روپ بھگت بن کے آئے کچھ
مکھی کو یار چھوڑ کے ہاتھی نگل گئے
ٹیلے سے قہقہوں کی پھواروں میں تھے غنیؔ
تیر ایک آنکھ والے اچانک اچھل گئے

غزل
باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے
غنی غیور