EN हिंदी
باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے | شیح شیری
baghi hudud se bahut aage nikal gae

غزل

باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے

غنی غیور

;

باغی حدود سے بہت آگے نکل گئے
سورج چھوا نہ تھا کہ مرے ہاتھ جل گئے

یہ حیرتوں کے بیچ میں حیرت زدہ نقوش
کیسے تماشبین تھے پتھر میں ڈھل گئے

جذبات میں کچھ اس طرح اس کا بدن تھا سرخ
زنجیر آہنی کے کڑے ہی پگھل گئے

بگلوں سے ان کے روپ بھگت بن کے آئے کچھ
مکھی کو یار چھوڑ کے ہاتھی نگل گئے

ٹیلے سے قہقہوں کی پھواروں میں تھے غنیؔ
تیر ایک آنکھ والے اچانک اچھل گئے