باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے
خار کی مانند اب گل بھی نکیلے ہو گئے
بہتے دریا سے سبھی سیراب ہیں لیکن مجھے
صرف اک قطرہ ملا بس ہونٹ گیلے ہو گئے
مے کشوں نے بس قدم رکھا تھا صحن باغ میں
پھول پتے بیل بوٹے سب نشیلے ہو گئے
ایک ہی آدم سے ہیں لیکن سیاست کے نثار
کس قدر فرقے بنے کتنے قبیلے ہو گئے
میرے بچپن کا زمانہ پھول کا انبار تھا
جیسے ہی بچپن گیا انبار ٹیلے ہو گئے
اک نظر تنقید کی پڑنے کی عارفؔ دیر تھی
شعر جتنے تھے غزل میں سب رسیلے ہو گئے
غزل
باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے
عارف انصاری