EN हिंदी
باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے | شیح شیری
baghban ki be-ruKHi se nile-pile ho gae

غزل

باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے

عارف انصاری

;

باغباں کی بے رخی سے نیلے پیلے ہو گئے
خار کی مانند اب گل بھی نکیلے ہو گئے

بہتے دریا سے سبھی سیراب ہیں لیکن مجھے
صرف اک قطرہ ملا بس ہونٹ گیلے ہو گئے

مے کشوں نے بس قدم رکھا تھا صحن باغ میں
پھول پتے بیل بوٹے سب نشیلے ہو گئے

ایک ہی آدم سے ہیں لیکن سیاست کے نثار
کس قدر فرقے بنے کتنے قبیلے ہو گئے

میرے بچپن کا زمانہ پھول کا انبار تھا
جیسے ہی بچپن گیا انبار ٹیلے ہو گئے

اک نظر تنقید کی پڑنے کی عارفؔ دیر تھی
شعر جتنے تھے غزل میں سب رسیلے ہو گئے