EN हिंदी
باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو | شیح شیری
bagh mein jugnu chamakte hain jo pyare raat ko

غزل

باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو

رشید لکھنوی

;

باغ میں جگنو چمکتے ہیں جو پیارے رات کو
یاد آتے ہیں ان آنکھوں کے اشارے رات کو

شبہ ہے تم کو کہاں ٹوٹے ہیں تارے رات کو
دم بہ دم آنسو ٹپکتے تھے ہمارے رات کو

ٹوٹے تارے سیکڑوں یوں قدسیوں کے دل ہلے
درد سے جس وقت ہم تم کو پکارے رات کو

پوری گردش آسماں نے شام سے کی تا سحر
آج میں نے گن لیے سارے ستارے رات کو

دھوپ نکلی دن کو چہرے سے ہٹا لی جب نقاب
چاندنی پھیلی جہاں کپڑے اتارے رات کو

صاف کروٹ لینے کی آواز آئی کان میں
سوئے دل جب جھک کے ہم تم کو پکارے رات کو

ذروں کو شاباش دن کو ہیں حضور مہر رخ
دیکھیے چھپ کے نکلتے ہیں ستارے رات کو

ہجر کی مدت نہ ہوگی ختم ثابت ہو چکا
دن کو ذرے گن چکا میں اور تارے رات کو

الفت رخ میں ہے وحشت یاد گیسو میں بکا
دن کو صحرا میں ہیں دریا کے کنارے رات کو

آ گئی صبح قیامت اور میں سویا نہیں
پھر نہ آئی نیند تم جب سے سدھارے رات کو

دل جگر لینے پھر آئے صبح کو کہتے ہوئے
رہ گئے بستر پہ دو موتی ہمارے رات کو

منہ پہ زلف زر فشاں ہے مجھ سے ہے رونے کا حکم
چاندنی دیکھی ہے دریا کے کنارے رات کو

آپ آرائش بھی کرتے ہیں موافق وقت کے
دن کو منہ دھویا گیا گیسو سنوارے رات کو

ڈھونڈھتے پھرتے ہیں دل کو صبح سے ہر سو رشیدؔ
دل ربا تھا ایک پہلو میں ہمارے رات کو