باغ کیا کیا شجر دکھاتے ہیں
ہم بھی اپنے ثمر دکھاتے ہیں
آ تجھے بے خبر دکھاتے ہیں
حالت نامہ بر دکھاتے ہیں
کچھ مظاہر ہیں جو نگر میں ہمیں
دوسرا ہی نگر دکھاتے ہیں
روح مطلق میں عشق جذب ہوا
عرش کا کام کر دکھاتے ہیں
خود تو پہنچے ہوئے ہیں منزل پر
پاؤں کو در بدر دکھاتے ہیں
ہم کو مطلوب خود سے جانا ہے
واں نہیں ہیں جدھر دکھاتے ہیں
کتنا پھیلاؤ رقص آب میں ہے
اپنے سر سے اتر دکھاتے ہیں
آ دکھاتے ہیں تجھ کو اپنا آپ
اور دل کھول کر دکھاتے ہیں
آ کراتے ہیں سیر دل تجھ کو
آ تجھے بحر و بر دکھاتے ہیں
جب دکھانی ہو رونق رفتار
وہ یہاں سے گزر دکھاتے ہیں
اٹھتے پانی سی لہر لینے سے وہ
سر سے پا تک کمر دکھاتے ہیں
کون سورج ہماری آنکھوں کو
خواب شام و سحر دکھاتے ہیں
راہ دشوار جب نہیں کٹتی
وہ کوئی بات کر دکھاتے ہیں
مت اٹھا اب کوئی نئی دیوار
ہم تجھے اپنا سر دکھاتے ہیں
چاندنی کیا کہیں پہ بکھرے گی
تیرے در پر بکھر دکھاتے ہیں
دیکھ اک تنگیٔ قیامت خیز
ہم تجھے اپنا گھر دکھاتے ہیں
بام افلاک سے اتار ہمیں
ہاتھ پر دیپ دھر دکھاتے ہیں
اصل رخ کا نہیں ہے عشر عشیر
جو ہمیں چارہ گر دکھاتے ہیں
کچھ تو مضموں بنے بنائے ہیں
اور کچھ باندھ کر دکھاتے ہیں
غمزہ ہائے پس نظارہ نویدؔ
ہم کو راہ سفر دکھاتے ہیں
غزل
باغ کیا کیا شجر دکھاتے ہیں
افضال نوید