بادل اس بار جو اس شہر پہ چھائے ہوئے ہیں
سب مرے دیدۂ نمناک کے لائے ہوئے ہیں
راستے میں نظر آتے ہیں نہ پہنچے ہیں کہیں
ہم کسی بیچ کے منظر کے لبھائے ہوئے ہیں
بدن یار یہ سب رنگ ترے اپنے ہیں
یا کسی دست محبت کے لگائے ہوئے ہیں
کتنے سمجھوتے ہواؤں سے کیے بیٹھے ہیں
جو سر راہ چراغ اپنے جلائے ہوئے ہیں
غزل
بادل اس بار جو اس شہر پہ چھائے ہوئے ہیں
فرحت احساس