EN हिंदी
بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں | شیح شیری
baada-kash hun na parsa hun main

غزل

بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں

زہیر کنجاہی

;

بادہ کش ہوں نہ پارسا ہوں میں
کوئی سمجھائے مجھ کو کیا ہوں میں

رات بکھرے ہوئے ستاروں کو
دن کی باتیں سنا رہا ہوں میں

میرے دل میں ہیں غم زمانے کے
ساری دنیا کا ماجرا ہوں میں

شعر اچھے برے ہوں میرے ہیں
ذہن سے اپنے سوچتا ہوں میں

کوئی منزل نہیں مری منزل
کس دوراہے پہ آ گیا ہوں میں

یوں گرا ہوں کہ اٹھ نہیں سکتا
شاید اپنا ہی نقش پا ہوں میں

ان کا افسانہ کہتے کہتے زہیرؔ
اپنی روداد کہہ گیا ہوں میں