EN हिंदी
بعد مدت ملے کچھ کہا نہ سنا بھر گئے زخم پروائیاں سو گئیں | شیح شیری
baad muddat mile kuchh kaha na suna bhar gae zaKHm purwaiyan so gain

غزل

بعد مدت ملے کچھ کہا نہ سنا بھر گئے زخم پروائیاں سو گئیں

عتیق انظر

;

بعد مدت ملے کچھ کہا نہ سنا بھر گئے زخم پروائیاں سو گئیں
کنگھی کرتی ہوئی ریشمی زلف میں میری بیتاب سی انگلیاں سو گئیں

آج الھڑ پجارن وہ آئی نہیں دل کے مندر میں گھنٹی بجائی نہیں
آس کے سب دیے ٹمٹمانے لگے میرے جذبات کی گھنٹیاں سو گئیں

اب فضاؤں میں خوشبو مہکتی نہیں اب وہ پاگل ہوائیں تھرکتی نہیں
ایک تو کر گئی کیا اکیلا مجھے لہلہاتی ہوئی وادیاں سو گئیں

اس کے ہاتھوں میں چوڑی کھنکتی نہیں اس کے پیروں میں پائل جھنکتی نہیں
چھوڑ دی میں نے جب سے گلی پیار کی اس کے کانوں کی بھی بالیاں سو گئیں

اک ندی کے کنارے بسے گاؤں میں گزرا بچپن مرا چاند کی چھاؤں میں
ہم بڑے جب ہوئے اجنبی ہو گئے دل کے مندر کی سب دیویاں سو گئیں

گھاٹ دل کا مرے آج سنسان ہے کوئی گوپی نہانے اب آتی نہیں
میری مرلی کی دھن اب لرزنے لگی میرے مدھوبن کی سب گوپیاں سو گئیں

آم کے پیڑ شاداب ہیں آج بھی بورتے اور پھلتے بھی ہیں وہ مگر
اب وہ جھولے کہاں اب وہ کجری کہاں وہ لچکتی ہوئی ڈالیاں سو گئیں