EN हिंदी
بعد مدت کے وہ ملا ہے مجھے | شیح شیری
baad muddat ke wo mila hai mujhe

غزل

بعد مدت کے وہ ملا ہے مجھے

نیرج گوسوامی

;

بعد مدت کے وہ ملا ہے مجھے
ڈر جدائی کا پھر لگا ہے مجھے

آ گیا ہوں میں دسترس میں تری
اپنے انجام کا پتہ ہے مجھے

کیا کروں یہ کبھی نہیں کہتا
جو کروں اس پہ ٹوکتا ہے مجھے

تجھ سے مل کے میں جب سے آیا ہوں
ہر کوئی مڑ کے دیکھتا ہے مجھے

اب تلک کچھ ورق ہی پلٹے ہیں
تجھ کو جی بھر کے بانچنا ہے مجھے

ٹھوکریں جب کبھی میں کھاتا ہوں
کون ہے وہ جو تھامتا ہے مجھے

سوچتا ہوں یہ سوچ کر میں اسے
وہ بھی ایسے ہی سوچتا ہے مجھے

میں تجھے کس طرح بیان کروں
یہ کرشمہ تو سیکھنا ہے مجھے

نیند میں چل رہا تھا میں نیرجؔ
تو نے آ کر جگا دیا ہے مجھے