بعد مدت کے تری یاد کے بادل برسے
وہ بھی ایسے کہ کئی روز مسلسل برسے
منتظر اور بھی صحرا ہیں اسی بادل کے
صرف تجھ پر ہی بھلا کیسے یہ ہر پل برسے
پیاس اس شہر کی بجھنے کا یہی رستہ ہے
بن کے بادل کسی درویش کی چھاگل برسے
لگ گئی کس کی نظر شہر نگاراں کو مرے
اب تو ہر شام یہاں وحشت مقتل برسے
کب کی پیاسی ہے زمیں یہ بھی نظر میں رکھے
کہہ دو بادل سے ذرا دیر مسلسل برسے
لب کشا ہو کہ مہک اٹھے فضا کا یہ سکوت
منتظر کب سے سماعت ہے کہ صندل برسے
غزل
بعد مدت کے تری یاد کے بادل برسے
جاوید نسیمی