بعد مدت کے کھلا جوہر نایاب مرا
جو اندھیرے میں تھا روشن ہوا وہ باب مرا
میں زمیں والوں کی آنکھوں میں بھرا ہوں لیکن
آسماں والوں نے دیکھا ہے کوئی خواب مرا
عطر افشانیٔ قربت سے تھی معمور فضا
جذبۂ قطرۂ خوں کب ہوا سیراب مرا
کتنے دریاؤں پہ تھا کالی گھٹاؤں کا جلوس
ایک اک بوند کا پیاسا رہا تالاب مرا
مطمئن ہو گئے احباب مرے خوش ہے زمیں
اک نئی سمت جو بیڑا ہوا غرقاب مرا
سب کے ہونٹوں پہ گلابوں کا تبسم تھا صباؔ
مطمئن میں ہوں کہ ہر زخم ہے شاداب مرا
غزل
بعد مدت کے کھلا جوہر نایاب مرا
علیم صبا نویدی