با ثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں
اپنی تقدیر میں بارانی علاقہ ہوں میں
حدت لمس مجھے آتش احساس لگا
برف آلود ہواؤں کا جمایا ہوں میں
میرے کردار کو اس دور نے سمجھا ہی نہیں
قصۂ عہد گذشتہ کا حوالہ ہوں میں
عمر ہے رسی پہ چلتے ہوئے شعلے کی طرح
کھیل میں گیند پکڑتا ہوا بچہ ہوں میں
ہنستا ہوں کھیلتا ہوں چیختا ہوں روتا ہوں
اتنے متضاد رویوں کا ٹھکانہ ہوں میں
ہر نئے پات کی آمد کی خوشی مجھ سے ہے
اور ہر جھڑتی ہوئی شاخ کا صدمہ ہوں میں
ایسے ماحول کا حصہ ہوں جو میرا نہیں ہے
کبھی فریاد سراپا کبھی شکوہ ہوں میں
غزل
با ثمر ہونے کی امید پہ بیٹھا ہوں میں
قاسم یعقوب