EN हिंदी
باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں | شیح شیری
ba-hosh wahi hain diwane ulfat mein jo aisa karte hain

غزل

باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں

فنا بلند شہری

;

باہوش وہی ہیں دیوانے الفت میں جو ایسا کرتے ہیں
ہر وقت انہی کے جلووں سے ایمان کا سودا کرتے ہیں

ہم اہل جنوں میں بس یہی معراج عبادت ہے اپنی
ملتا ہے جب ان کا نقش قدم ہم شکر کا سجدہ کرتے ہیں

ملتے ہیں نظر ہوش اڑتے ہیں مستی بھی برسنے لگتی ہے
معلوم نہیں وہ کون سی مے آنکھوں سے پلایا کرتے ہیں

پاتے ہیں وہی مقصود نظر ملتی ہے انہیں منزل ان کی
جو ان کی تمنا میں ہر دم خود اپنی تمنا کرتے ہیں

ہے شوق یہی مستانوں کو ہے شرم یہی دیوانوں کو
سینے سے لگا کر یاد اس کی اس شوخ کی پوجا کرتے ہیں

مایوس نہ ہو نادان نہ بن دل سوز الم سے جلنے دے
جو چاہنے والے ہیں ان کے وہ آگ سے کھیلا کرتے ہیں

ہم کس کے ہوئے دل کس نے لیا وہ کون ہے کیا ہے کیا کہئے
یہ راز ابھی تک کھل نہ سکا ہم کس کی تمنا کرتے ہیں

میخانہ‌ ہستی میں ہم نے یہ رنگ نیا دیکھا ساقی
جن بادہ کشوں کو ہوش نہیں وہ ہوش کا دعویٰ کرتے ہیں

یہ کیسی جفائیں ہوتی ہیں یہ کیسی ادا ہے ان کی فناؔ
ہم حسن کا پردہ رکھتے ہیں وہ عشق کا دعویٰ کرتے ہیں