EN हिंदी
بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے | شیح شیری
ba-zahir kya hai jo hasil nahin hai

غزل

بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے

جاوید اختر

;

بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے
مگر یہ تو مری منزل نہیں ہے

یہ تودہ ریت کا ہے بیچ دریا
یہ بہہ جائے گا یہ ساحل نہیں ہے

بہت آسان ہے پہچان اس کی
اگر دکھتا نہیں تو دل نہیں ہے

مسافر وہ عجب ہے کارواں میں
کہ جو ہم راہ ہے شامل نہیں ہے

بس اک مقتول ہی مقتول کب ہے
بس اک قاتل ہی تو قاتل نہیں ہے

کبھی تو رات کو تم رات کہہ دو
یہ کام اتنا بھی اب مشکل نہیں ہے