بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے
مگر یہ تو مری منزل نہیں ہے
یہ تودہ ریت کا ہے بیچ دریا
یہ بہہ جائے گا یہ ساحل نہیں ہے
بہت آسان ہے پہچان اس کی
اگر دکھتا نہیں تو دل نہیں ہے
مسافر وہ عجب ہے کارواں میں
کہ جو ہم راہ ہے شامل نہیں ہے
بس اک مقتول ہی مقتول کب ہے
بس اک قاتل ہی تو قاتل نہیں ہے
کبھی تو رات کو تم رات کہہ دو
یہ کام اتنا بھی اب مشکل نہیں ہے
غزل
بظاہر کیا ہے جو حاصل نہیں ہے
جاوید اختر