بہ وصف شوق بھی دل کا کہا نہیں کرتے
فروغ قامت و رخ کی ثنا نہیں کرتے
شکست عہد ستم پر یقین رکھتے ہیں
ہم انتہائے ستم کا گلا نہیں کرتے
کچھ اس طرح سے لٹی ہے متاع دیدہ و دل
کہ اب کسی سے بھی ذکر وفا نہیں کرتے
اسی لئے ہیں سزاوار جور برق ستم
کہ حق خدمت گلچیں ادا نہیں کرتے
مذاق کوہکنی ہو کہ دشت پیمائی
جنہیں تمہاری طلب ہو وہ کیا نہیں کرتے
وہ آشنائے غم کائنات کیا ہوں گے
جو خود کو آپ کا درد آشنا نہیں کرتے
غم حبیب غم زندگی غم دوراں
کسی مقام پہ ہم جی برا نہیں کرتے
غزل
بہ وصف شوق بھی دل کا کہا نہیں کرتے
احمد ریاض