بہ طرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
نئی زمین بنانی پڑی ہے آخر کار
تپش نے جس کی مجھے کیمیا بنانا تھا
مجھے وہ آگ بجھانی پڑی ہے آخر کار
بہت دنوں سے یہ مٹی پڑی تھی ایک جگہ
ہر ایک سمت اڑانی پڑی ہے آخر کار
جہاں پہ قصر بنائے گئے تھے کاغذ کے
وہاں سے راکھ اٹھانی پڑی ہے آخر کار
وہ پاؤں بھیگے ہوئے دیکھنے کی خواہش میں
چمن میں اوس بچھانی پڑی ہے آخر کار
مرے بدن کی ضیا بڑھ گئی تھی سورج سے
لہو میں رات ملانی پڑی ہے آخر کار
زمیں پہ داغ بہت پڑ گئے تھے خون کے داغ
فلک کو برف گرانی پڑی ہے آخر کار
غزل
بہ طرز خواب سجانی پڑی ہے آخر کار
دانیال طریر