بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
کہ انقلاب کے پردے میں آ رہا ہے کوئی
خودی کو راہ خدائی پہ لا رہا ہے کوئی
ابھی دماغ بشر آزما رہا ہے کوئی
جہاں خرابۂ ہستی مٹا رہا ہے کوئی
وہیں کہیں نئی دنیا بنا رہا ہے کوئی
ابھی نقاب کشائی حسن ہے دشوار
وہی اٹھے ہوئے پردے اٹھا رہا ہے کوئی
جو ذہن میں ہے وہ تصویر بن نہیں چکتی
بنا بنا کے ہیولے مٹا رہا ہے کوئی
بھلا رہا ہے کسی کو تو بر بنائے مآل
یہ غور کر کہ بھلایا بھی جا رہا ہے کوئی
دل فسردہ کی باتوں پہ یہ تبسم ناز
کلی کو پھول بنانا سکھا رہا ہے کوئی
وفا کی داد ہے کوتاہیٔ وفا کی دلیل
میں جانتا ہوں کہ ہمت بڑھا رہا ہے کوئی
حدیث کہنہ ہے روداد انقلاب چمن
سنی ہوئی سی کہانی سنا رہا ہے کوئی
مری وفاؤں کا ہے اعتراف میرے بعد
خوشا نصیب مجھے کھو کے پا رہا ہے کوئی
ہے اپنے سائے سے وحشت میں کس قدر تسکیں
سمجھ رہا ہوں مرے ساتھ آ رہا ہے کوئی
نصیب ذوق ہو سیمابؔ قسمت موسیٰ
ہمیں بھی طور کی جانب بلا رہا ہے کوئی
غزل
بقید وقت یہ مژدہ سنا رہا ہے کوئی
سیماب اکبرآبادی