EN हिंदी
بہ پاس احتیاط آرزو یہ بارہا ہوا | شیح شیری
ba-pas-e-ehtiyat-e-arzu ye bar-ha hua

غزل

بہ پاس احتیاط آرزو یہ بارہا ہوا

شاد عارفی

;

بہ پاس احتیاط آرزو یہ بارہا ہوا
نکل گیا قریب سے وہ حال پوچھتا ہوا

حجاب رخ لہک اٹھا اگر بہت خفا ہوا
جبھی تو ہم سے پے بہ پے قصور مدعا ہوا

شکایت عدم توجہی بجا سہی مگر
نصیب اہل انجمن نہیں ہے دل دکھا ہوا

امین راز غم نہیں ہیں در خور ستم نہیں
پلٹ رہے ہیں آپ ہی پہ آپ کا کہا ہوا

اٹھیں گی میری وجہ سے جب آپ پر بھی انگلیاں
کہیں گے پھر تو آپ بھی کہ واقعی برا ہوا

ہجوم ماسوا سے بچ کے منزل مراد تک
پہنچ گیا ہوں رہزنوں سے راہ پوچھتا ہوا

کبھی کبھی خلوص بے تعلقی بھی چاہیئے
نگاہ میں نے پھیر لی تو اس کا سامنا ہوا

زمانۂ عبور انقلاب کی بھی عمر ہے
نہ شاخ آشیاں رہی نہ آشیاں جلا ہوا

نہیں کچھ اس سے مختلف گروہ بزم رقص و مے
نکل گیا جو گلستاں میں خواب دیکھتا ہوا

یہ کاوش امید و بیم بھی ہے لذت آفریں
نظر ادھر جمی ہوئی نقاب رخ اٹھا ہوا

غلط بیانیوں کے عہد نو میں شادؔ عارفی
مرا کمال فن یہ ہے کہ صرف ماجرا ہوا