بہ نام یار طرحدار اے صبا لے جا
یہ آب جو یہ گل و سبزہ یہ گھٹا لے جا
جو نام کو بھی سکوں ہے اسے اٹھا لے جا
جو ہوش اڑا ہے تو یہ خاک بھی اڑا لے جا
لبوں میں ربط نہیں آنکھ ہے مگر سرشار
گلاب رہنے دے خوشبو کا آسرا لے جا
بھری ہے جوش چمن سے نمود خوش بدنی
سرور بھی گلۂ جاں گداز کا لے جا
گراں بہا ہے یہ دولت جو سن نوائے فقیر
دکھا دے روئے تبسم نما دعا لے جا

غزل
بہ نام یار طرحدار اے صبا لے جا
سید امین اشرف