بہ حرف صورت انکار توڑ دی میں نے
دلوں کے بیچ کی دیوار توڑ دی میں نے
وہ بے خودی میں ترا نام لب پہ آ ہی گیا
لو یہ قسم بھی مرے یار توڑ دی میں نے
ترے غبار کف پا کی کج کلاہی میں
غرور و نخوت دستار توڑ دی میں نے
اس عاجزی سے کیا اس نے میرے سر کا سوال
خود اپنے ہاتھ سے تلوار توڑ دی میں نے
کچھ اس طرح سے بڑھی لذت خلش دل کی
جگر میں درد کی سوفار توڑ دی میں نے
صدائے نالۂ بے اختیار سے اپنے
ترے سکوت کی رفتار توڑ دی میں نے
مرے جسارت طرز سخن کی داد تو دے
روایت لب و رخسار توڑ دی میں نے
غزل
بہ حرف صورت انکار توڑ دی میں نے
شاہد کمال