بہ ہر عالم برابر لکھ رہا ہوں
میں پیاسا ہوں سمندر لکھ رہا ہوں
صدف اندر صدف تھے جو معانی
انہیں گوہر بہ گوہر لکھ رہا ہوں
نہیں یہ شاعری ہرگز نہیں ہے
میں خود اپنا مقدر لکھ رہا ہوں
ہر اک طفل قلم یہ سوچتا ہے
میں کل دنیا سے بہتر لکھ رہا ہوں
نظر آتی نہیں جو دل کی دنیا
اسے منظر بہ منظر لکھ رہا ہوں
مے لب سے مجھے خوش کرنے والو
تمہارے نام کوثر لکھ رہا ہوں
جو مستی ہے مرا مقسوم صہباؔ
اسے ساغر بہ ساغر لکھ رہا ہوں
غزل
بہ ہر عالم برابر لکھ رہا ہوں
صہبا اختر