بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا
کہ خود ہی اپنے کئے کا حساب دیکھ لیا
یہ نسل نسل مسافت بہل رہی ہے یوں ہی
سراب جاگتے سوتے میں خواب دیکھ لیا
دلوں کی تیرگی دھونے کو لوگ اٹھے ہیں جب
چھتوں پر اترا ہوا آفتاب دیکھ لیا
سروں سے تاج بڑے جسم سے عبائیں بڑی
زمانے ہم نے ترا انتخاب دیکھ لیا
وہ فاختہ جسے لانا تھا امن کا پیغام
اڑی نہیں تھی کہ اس نے عقاب دیکھ لیا
کبھی وہ کھل کے کبھی سرسری ملا ہم سے
کبھی ہلال کبھی ماہتاب دیکھ لیا
کتاب پڑھنے کی فرصت یہاں کسے انجمؔ
بہت ہوا تو فقط انتساب دیکھ لیا
غزل
بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا
انجم خلیق