EN हिंदी
بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا | شیح شیری
ba-faiz-e-agahi ye kya azab dekh liya

غزل

بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا

انجم خلیق

;

بہ فیض آگہی یہ کیا عذاب دیکھ لیا
کہ خود ہی اپنے کئے کا حساب دیکھ لیا

یہ نسل نسل مسافت بہل رہی ہے یوں ہی
سراب جاگتے سوتے میں خواب دیکھ لیا

دلوں کی تیرگی دھونے کو لوگ اٹھے ہیں جب
چھتوں پر اترا ہوا آفتاب دیکھ لیا

سروں سے تاج بڑے جسم سے عبائیں بڑی
زمانے ہم نے ترا انتخاب دیکھ لیا

وہ فاختہ جسے لانا تھا امن کا پیغام
اڑی نہیں تھی کہ اس نے عقاب دیکھ لیا

کبھی وہ کھل کے کبھی سرسری ملا ہم سے
کبھی ہلال کبھی ماہتاب دیکھ لیا

کتاب پڑھنے کی فرصت یہاں کسے انجمؔ
بہت ہوا تو فقط انتساب دیکھ لیا