EN हिंदी
بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ | شیح شیری
ba-faiz-e-agahi hai muddaa sanjida sanjida

غزل

بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ

سید جمیل مدنی

;

بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ
خودی نے وا کئے ہیں راز کیا پیچیدہ پیچیدہ

نظر حیراں طبیعت ہے ذرا رنجیدہ رنجیدہ
ہوا دل ہے کسی کا مبتلا پوشیدہ پوشیدہ

فضاؤں سے فسانہ سن کے اس کے درد ہجراں کا
گلوں نے چن لئے اشک صبا لرزیدہ لرزیدہ

اسی مست جوانی کے قدم بڑھ کر لئے ہوں گے
چمن میں چل رہی ہے جو صبا لغزیدہ لغزیدہ

ٹھہر جائے نہ گھبرا کر کہیں یہ قافلہ دل کا
مری جانب نظر پھر سے اٹھا دزدیدہ دزدیدہ

جمیلؔ زار کا ہے یہ نشاں اے گلستاں والو
جواں ہمت پریشاں حال سا کاہیدہ کاہیدہ