بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ
خودی نے وا کئے ہیں راز کیا پیچیدہ پیچیدہ
نظر حیراں طبیعت ہے ذرا رنجیدہ رنجیدہ
ہوا دل ہے کسی کا مبتلا پوشیدہ پوشیدہ
فضاؤں سے فسانہ سن کے اس کے درد ہجراں کا
گلوں نے چن لئے اشک صبا لرزیدہ لرزیدہ
اسی مست جوانی کے قدم بڑھ کر لئے ہوں گے
چمن میں چل رہی ہے جو صبا لغزیدہ لغزیدہ
ٹھہر جائے نہ گھبرا کر کہیں یہ قافلہ دل کا
مری جانب نظر پھر سے اٹھا دزدیدہ دزدیدہ
جمیلؔ زار کا ہے یہ نشاں اے گلستاں والو
جواں ہمت پریشاں حال سا کاہیدہ کاہیدہ

غزل
بہ فیض آگہی ہے مدعا سنجیدہ سنجیدہ
سید جمیل مدنی