عظمتیں سب تری خدائی کی
حیثیت کیا مری اکائی کی
مرے ہونٹوں کے پھول سوکھ گئے
تم نے کیا مجھ سے بے وفائی کی
سب مرے ہاتھ پاؤں لفظوں کے
اور آنکھیں بھی روشنائی کی
میں ہی ملزم ہوں میں ہی منصف ہوں
کوئی صورت نہیں رہائی کی
اک برس زندگی کا بیت گیا
تہہ جمی ایک اور کائی کی
اب ترستے رہو غزل کے لیے
تم نے لفظوں سے بے وفائی کی
غزل
عظمتیں سب تری خدائی کی
بشیر بدر