اذیتوں کو کسی طرح کم نہ کر پایا
میں اپنے ہاتھ ابھی تک قلم نہ کر پایا
حوالے لاکھ دلیل ایک بھی نہ دے شاید
نظر میں کیوں کسی منظر کو ضم نہ کر پایا
ہے بے تراش ابھی دست ذہن میں اک نقش
کہ اس کے رنگ کو میں ہم قلم نہ کر پایا
ہے شرم تشنہ لبی اس کی جس سے بجھ جاتی
میں اتنا خون جگر کیوں بہم نہ کر پایا
تہی ثمر مرے دامن کو ہی ٹھہرنا تھا
میں موسموں کے قصیدے رقم نہ کر پایا
تراوتوں سے بھرا لفظ درس ہے جس کا
اسی سے خود کو ابھی تک وہ کم نہ کر پایا
سوال سنگ تھا سرزد پہ تھا مرا منظور
میں چپ رہا کہ میں خود پر ستم نہ کر پایا
غزل
اذیتوں کو کسی طرح کم نہ کر پایا
حکیم منظور