ازل سے بادۂ ہستی کی ارزانی نہیں جاتی
اس ارزانی پہ بھی اس کی فراوانی نہیں جاتی
ہجوم رنج و غم نے اس قدر مجھ کو رلایا ہے
کہ اب راحت کی صورت مجھ سے پہچانی نہیں جاتی
ہوئی تھی اک خطا سرزد سو اس کو مدتیں گزریں
مگر اب تک مرے دل سے پشیمانی نہیں جاتی
چمن زار تمنا کا فقط اک پھول مرجھایا
اسی دن سے مرے گلشن کی ویرانی نہیں جاتی
مرے اشکوں سے کیا نسبت تمہیں اے انجم گردوں
کہ ان کی روز روشن میں بھی تابانی نہیں جاتی
مری وحشت میں شاید آ چلے انداز رعنائی
کہ زلفوں کی طرح دل کی پریشانی نہیں جاتی
غزل
ازل سے بادۂ ہستی کی ارزانی نہیں جاتی
جگدیش سہائے سکسینہ