EN हिंदी
ازل سے بادۂ ہستی کی ارزانی نہیں جاتی | شیح شیری
azal se baada-e-hasti ki arzani nahin jati

غزل

ازل سے بادۂ ہستی کی ارزانی نہیں جاتی

جگدیش سہائے سکسینہ

;

ازل سے بادۂ ہستی کی ارزانی نہیں جاتی
اس ارزانی پہ بھی اس کی فراوانی نہیں جاتی

ہجوم رنج و غم نے اس قدر مجھ کو رلایا ہے
کہ اب راحت کی صورت مجھ سے پہچانی نہیں جاتی

ہوئی تھی اک خطا سرزد سو اس کو مدتیں گزریں
مگر اب تک مرے دل سے پشیمانی نہیں جاتی

چمن زار تمنا کا فقط اک پھول مرجھایا
اسی دن سے مرے گلشن کی ویرانی نہیں جاتی

مرے اشکوں سے کیا نسبت تمہیں اے انجم گردوں
کہ ان کی روز روشن میں بھی تابانی نہیں جاتی

مری وحشت میں شاید آ چلے انداز رعنائی
کہ زلفوں کی طرح دل کی پریشانی نہیں جاتی