EN हिंदी
عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے | شیح شیری
ayaadat hoti jati hai ibaadat hoti jati hai

غزل

عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے

مینا کماری

;

عیادت ہوتی جاتی ہے عبادت ہوتی جاتی ہے
مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

نمی سی آنکھ میں اور ہونٹ بھی بھیگے ہوئے سے ہیں
یہ بھیگا پن ہی دیکھو مسکراہٹ ہوتی جاتی ہے

تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دم
ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

یہ کیسی یاس ہے رونے کی بھی اور مسکرانے کی
یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے

کبھی تو خوبصورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
کسی غم خانہ سے گویا محبت ہوتی جاتی ہے

خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے