اوروں نے اس گلی سے کیا کیا نہ کچھ خریدا
ہم کور چشم اس کے قدموں کی دھول لائے
دامن سماعتوں کا پھولوں سے بھر رہا ہوں
اس سے کہو کہ اپنی باتوں میں طول لائے
وحی بدن نہ اتری اس کی ہمارے دل پر
ہم صرف اس کی گرد شان نزول لائے
ہم کو اگر خوشی ہے تو یہ کہ اس جہاں سے
بے برگ و بار گزرے فصل فضول لائے
تھی سخت تیغ اخراج اس کے مقابلے پر
احساسؔ جیسا صوفی اہل شمول لائے
غزل
اوروں نے اس گلی سے کیا کیا نہ کچھ خریدا (ردیف .. ے)
فرحت احساس