اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
ذکر خیر آپ کا ہی ہر دم ہے
جان تک تو نہیں ہے تجھ سے دریغ
اے میں قربان کیوں تو برہم ہے
گاہ رونا ہے کاہ ہنسنا ہے
عاشقی کا بھی زور عالم ہے
خوش نہ پایا کسی کو یاں ہم نے
دیکھی دنیا سرائے ماتم ہے
آہ جس دن سے آنکھ تجھ سے لگی
دل پہ ہر روز اک نیا غم ہے
مگر آنسو کسو کے پونچھے ہیں
آستیں آج کیوں تری نم ہے
اس کے عارض پہ ہے عرق کی بوند
یا کہ بیدارؔ گل پہ شبنم ہے
غزل
اوروں کی بات یاں بہت کم ہے
میر محمدی بیدار