اوروں کا سارا کام مجھے دے دیا گیا
اور میرا کام جانے کسے دے دیا گیا
مجھ سے کہا گیا کہ اتارو اب اپنے عکس
آئینہ اک چراغ تلے دے دیا گیا
تھی یہ مری سزا پہ مزے آ گئے مرے
اک گھر ہر ایک گھر کے پرے دے دیا گیا
کانٹوں بھری جو راہ تھی یوں ہی رکھی گئی
بس نور آبلوں میں مرے دے دیا گیا
تعبیر جس کی ایسا ہی ایک اور خواب ہو
اک اور خواب روز مجھے دے دیا گیا
دعویٰ کسی کا دن کے اجالوں پہ اب نہیں
جو کچھ بھی تھا وہ رات گئے دے دیا گیا
احساسؔ جی وہیں تھے مگر کچھ نہ پا سکے
سب کچھ انہیں جو آئے نہ تھے دے دیا گیا
غزل
اوروں کا سارا کام مجھے دے دیا گیا
فرحت احساس