اور ذرا کج مری کلاہ تو ہوتی
ذات سے باہر کہیں پناہ تو ہوتی
مجھ کو اگر زندگی نے کچھ نہ دیا تھا
میرے شب و روز کی گواہ تو ہوتی
کھو گئی منزل تو خیر گرد سفر میں
جس پہ میں چلتا رہا وہ راہ تو ہوتی
خوف زدہ کاش کوئی مجھ کو بھی رکھتا
میرے لیے بھی کہیں پناہ تو ہوتی
لمحۂ موجود دسترس میں نہ ہوتا
لمحۂ موجود پر نگاہ تو ہوتی
اور مجھے خلق سے امید ہی کیا تھی
میری نہیں تیری خیر خواہ تو ہوتی
اپنے چراغوں کی تاب دیکھتے ہم بھی
رات ترے ہجر کی سیاہ تو ہوتی
اس نے مجھے کر دیا خراب تو کیا ہے
یوں بھی مری زندگی تباہ تو ہوتی
شہر سے نسبت بھی کچھ نکال ہی لیتے
شہر کے لوگوں سے رسم و راہ تو ہوتی
خاک پہ سونا ہمیں قبول تھا راشدؔ
خاک پہ کچھ رونق گیاہ تو ہوتی

غزل
اور ذرا کج مری کلاہ تو ہوتی
راشد مفتی