اور ان آنکھوں نے میرے دل کی حالت زار کی
ہو نہیں سکتی دوا بیمار سے بیمار کی
مہر کی ان پر ضرورت کیا ہے اے پیر مغاں
ایک اک خم پر لگی ہے آنکھ ہر مے خوار کی
خیر ہو یارب کہیں وہ خود نہ بن جائیں رقیب
آئینے پر آج پڑتی ہیں نگاہیں پیار کی
خون کر کے دل ہمارا پھر گئی وہ مست آنکھ
ایک ہی چلو میں نیت بھر گئی مے خوار کی
دید کے طالب تھے موسیٰ طور کو تھی کیا خبر
پھونک کر رکھ دے گی بجلی جلوۂ دیدار کی
جلوۂ محبوب سے خالی نہ دیکھا دل کوئی
آئینے ہیں سیکڑوں اور ایک صورت یار کی
ہو سبک رفتار کتنی ہی نسیم صبح دم
آنکھ کھل جاتی ہے پھر بھی نرگس بیمار کی
دختر رز نے دیے چھینٹے کچھ ایسے ساقیا
پانی پانی ہو گئی توبہ ہر اک مے خوار کی
کچھ پھلے پھولے نہ یہ نازک مضامیں اے جلیلؔ
بے کھلے مرجھا گئیں کلیاں مرے گل زار کی

غزل
اور ان آنکھوں نے میرے دل کی حالت زار کی
جلیلؔ مانک پوری